Monday, August 29, 2016

صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ کی وفات کے تقریباً پچاس سال بعد ہی ایک طرف تاتاری مسلمانوں پر اللہ کا عذاب بن کر ٹوٹے۔

صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ کی وفات کے تقریباً پچاس سال بعد ہی ایک طرف تاتاری مسلمانوں پر اللہ کا عذاب بن کر ٹوٹے۔
تو دوسری جانب حشیشین کا زور بہت زیادہ تھا، صلاح الدین ایوبی تو ان کے تین کاری واروں سے اللہ کے فضل سے محفوظ رہ گئے تھے لیکن بعد میں آنے والے دور کا کوئی اچھا انسان حشیشین کے وار سے نہ بچ سکا۔
ادھر تیسری جانب یورپ میں بڑے زور و شور سے تیسری صلیبی جنگ کی تیاری کی جا رہی تھی۔
یہ وہ حالات تھے جب مسلمانوں کے پاس کوئی راہ فرار بھی نہیں بچی تھی، تاتاریوں سے لڑنے کا حوصلہ تھا نہ صلیبیوں کا سامنا کرنے کی قوت۔۔۔ جو اچھا حکمران آتا حشیشین کے ہاتھوں شہید ہوجاتا، غرض اسلامی دنیا تین بڑے طاغوتوں کے رحم کرم پر تھی۔
اسلامی قوت کا مرکز بغداد ہلاکو خان کے ہاتھوں تاخت و تاراج ہوچکا تھا، حشیشین ایک بڑے علاقے پر قابض ہوکر اپنا کام کر رہے تھے، اور عکہ اور دوسرے ساحلی علاقوں میں موجود صلیبی قلعوں کے سردار یہ تمام خبریں یورپ پہنچا چکے تھے اور وہاں ایک بڑا لشکر بیت المقدس کو واپس لینے کی تیاری کر رہا تھا۔
بظاہر مسلمانوں کی طاقت و قوت ختم ہوچکی تھی دنیا کے ظاہری تمام اسباب ان کے مخالف تھے لیکن اسی وقت اللہ کی رحمت جوش میں آئی اور مسلمانوں کو ایک امیر ملا، ایک ایسا گوہر نایاب جو خصوصیات کے لحاظ سے "آل ان ون" تھا۔
جنگ کے میدان میں وہ جہاں کا رخ کرتا دشمنوں کی صفوں کی صفیں زیر و زبر کردیتا، تو سیاست میں اس کا ثانی تاریخ پیش کرنے سے قاصر ہے، جاسوسی میں اس قدر شاطر کہ بذات خود دشمنوں کے حالات تن تنہا بھیس بدل کر معلوم کر آتا۔
اسی سیاسی تدبیر سے اس نے صلیبیوں کو بغیر جنگ کیے شکست سے دوچار کردیا تھا۔
رازداری میں اتنا ماہر کہ حشیشین بھی عاجز آگئے۔
صلیبیوں کی شکست کے بعد اس نے فلسطین کے ساحلی علاقوں سے صلیبیوں کے تمام قلعے مسمار کر کے ان کے سارے خواب چکنا چور کردیۓ۔
تاتاریوں کو نہ صرف میدان جنگ میں عبرت ناک شکست دی بلکہ علماء کو تاجروں کے بھیس میں تبلیغ کیلئے بھی روانہ کیا، جس کے نتیجے میں تمام تاتاری قوم مشرف با اسلام ہوئی۔
حشیشین پر اچانک حملہ کرکے ان کے تمام قلعے مسمار کر دیئے اور کے ہر چھوٹے بڑے افسر کو قتل کرکے انہیں ماضی کی ایک کہانی بنا دیا۔۔۔
سلطان کو دنیا کی کافی زبانوں پر عبور حاصل تھا، جن میں پشتو، پنجابی، عربی تاتاری اور انگریزی قابل ذکر ہیں۔
وہ فقط چوالیس سال کی عمر میں اس دنیا سے کوچ کرگیا، لیکن اس وقت تک دنیا کا نقشہ بدل چکا تھا، اس کے مختصر دور حکومت کے بعد مسلمانوں کا گذشتہ ماضی کا دور دوبارہ شروع ہوچکا تھا اور کل کے مجبور و بےبس مسلمان اس وقت ایک بڑی طاقت بن چکے تھے۔
یہ کہانی ہے مصر کے عظیم حکمران سلطان رکن الدین محمود بیبرس کی، جنہیں اگر صلاح الدین ثانی کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔

No comments:

Post a Comment