Wednesday, May 17, 2017

Carrot

گاجر کا آبائی وطن یوں تو افغانستان بتایا جاتا ہے، لیکن اب یہ پوری دنیا میں کاشت کی جاتی ہے، جس کا سلاد، اچار اور حلوہ مقبول عام ہے۔ گاجر نہ صرف بینائی کو طاقت فراہم کرتی ہے بلکہ پیٹ کے کیڑوں کیلئے بھی زہر قاتل ہے اور پیش
اب آور ہونے کی وجہ سے یورک ایسڈ کی زیادتی اور استسقاء کا بھی علاج ہے۔ طبی ماہرین کی ایک تحقیقاتی ٹیم کے مطابق گاجر کینسر کی گلٹیاں بننے کا عمل روک دیتی ہیں، لہٰذا کاشتکار اس کے جدید پیداواری عوامل اپنا کر نہ صرف عوام کو سستی گاجر فراہم کر سکتے ہیں بلکہ اپنی آمدنی میں خاطر خواہ اضافہ بھی کر سکتے ہیں۔
گاجر سرد آب و ہوا کی فصل ہے، اسلئے بیج کے اگاؤ کیلئے 7 سے 23  ڈگری سینٹی گریڈ مثالی درجہ حرارت ہے۔ اسی طرح 20 سے 25 ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ سے زیادہ پیداوار اور معیاری گاجر حاصل کرنے کیلئے انتہائی مناسب ہے۔ گاجر ہر قسم کی زمین میں کامیابی سے کاشت کی جاسکتی ہے، لیکن اچھی پیداوار کیلئے گہری میرا جبکہ اگیتی پیداوار کیلئے ریتیلی میرا زمین درکار ہوتی ہے۔ چکنی زمین میں کاشت کی صورت میں کئی جڑوں والی چھوٹی چھوٹی گاجریں بننے کا امکان ہوتا ہے، جبکہ بہت زیادہ نامیاتی مادہ والی زمین میں بھی گاجر کا معیار اور رنگت خراب ہوجاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خوبصورت، لمبی اور ہموار گاجر کی پیداوار حاصل کرنے کیلئے ہلکی میرا زمین ہی بہتر رہتی ہے۔ گاجر کی ترقی دادہ قسم ٹی۔29 ہے، جو اعلیٰ پیداواری صلاحیت اور بیماریوں کے خلاف بہتر قوت مدافعت کی حامل ہے۔
صوبہ پنجاب میں گاجر کی اگیتی کاشت اگست میں شروع ہوجاتی ہے اور پچھیتی کاشت اکتوبر کے آخر تک جاری رہتی ہے۔ ستمبر کا دوسرا ہفتہ پنجاب میں اس کی کاشت کیلئے انتہائی موزوں قرار دیا جاتا ہے، جبکہ گاجر کی درآمد شدہ اقسام نومبر سے دسمبر تک کاشت کی جاتی ہیں۔ بوائی سے پہلے اگر بیج 12 گھنٹے پانی میں بھگو لیا جائے تو شرح اگاؤ میں اضافہ ممکن ہے۔ اچھی قسم کا صحت مند اور زیادہ روئیدگی والا بیج، جو جڑی بوٹیوں سے پاک و صاف ہو، استعمال کرنا چاہئے۔ تجربات کی روشنی میں 6 سے 8 کلوگرام بیج ایک ایکڑ کے لئے کافی ہوتا ہے۔ اگیتی فصل کی صورت میں شرح بیج 10 کلوگرام فی ایکڑ تک بڑھائی جاسکتی ہے۔ گاجر لمبی جڑ والی فصل ہے، اسلئے اگر زمین اچھی طرح تیار نہ ہو اور اس میں مٹی کے ڈلے اور گوبر کی کچی کھاد موجود ہو تو گاجر کی رنگت اور شکل پوری طرح نشوونما نہیں پاتی۔ لہٰذا زمین خوب گہرائی تک نرم اور بھربھری ہونا ضروری ہے۔ اس مقصد کیلئے وتر حالت میں زمین کو 3 سے 4 مرتبہ گہرا ہل چلا کر اور سہاگہ دے کر اچھی طرح تیار کیا جاتا ہے۔
گاجر کی کاشت کیلئے زمین کی تیاری سے پہلے داب سسٹم کے ذریعہ جڑی بوٹیوں کی تلفی فصل پر مثبت اثرات مرتب کرتی ہے، جبکہ اچھی طرح گلی سڑی گوبر کی کھاد نہ صرف اچھی پیداوار کا سبب بنتی ہے بلکہ کیمیائی کھادوں کے استعمال کی بھی کم ضرورت ہوتی ہے۔ نائٹروجنی کھاد کا زیادہ استعمال گاجر کی خوبیوں کو ضائع کر دیتا ہے۔ زمین کی تیاری کے دوران 2 بوری ڈی اے پی اور ایک بوری پوٹاش فی ایکڑ یکساں بکھیر دیں اور زمین میں اچھی طرح ملا دیں۔
فصل کے ایک ماہ بعد ایک بوری امونیم سلفیٹ فی ایکڑ ڈال دیں۔ اچھی طرح ہموار اور تیار شدہ زمین میں 75 سینٹی میٹر یعنی ڈھائی فٹ کے فاصلہ پر پٹریاں بنا کر ان کے دونوں کناروں پر ایک سینٹی میٹر گہری لائنوں میں بیج کیرا کرکے مٹی سے ڈھانپ دیں اور فوراً پانی اس طرح لگائیں کہ پٹڑیوں پر ہر گز نہ چڑھنے پائے۔ ابتداء میں ایک ہفتہ کے دوران 2 مرتبہ آبپاشی کرنے سے اگاؤ بہتر ہوتا ہے۔ بعد میں فصل کی ضرورت کے مطابق آبپاشی کا درمیانی وقفہ بڑھاتے جائیں لیکن ہفتہ وار آبپاشی بہتر رہتی ہے۔
برداشت سے 2 ہفتہ پہلے پانی بند کر دیں، تاکہ گاجر کی مٹھاس بڑھ جائے اور اسے اکھاڑنے میں بھی سہولت ہو۔ معیاری اور اچھی پیداوار کے حصول کے لئے جڑی بوٹیوں پر قابو پانا بیحد ضروری ہے۔ گاجر کی بوائی کے بعد 2 سے 4 ہفتہ کے اندر جڑی بوٹیوں کا تدارک فصل کی پیداوار پر مثبت اثرات مرتب کرتا ہے، جس کے بعد فصل خود ہی جڑی بوٹیوں پر قابو پالیتی ہے۔ گاجر کا بہتر معیار حاصل کرنے کیلئے ضروری ہے کہ گاجر کی بروقت چھدرائی کی جائے۔ چھدرائی اس طرح کریں کہ پودوں کا درمیانی فاصلہ 2 سے 3 سینٹی میٹر رہے۔ چھدرائی کرتے وقت اس بات کا خیال رکھیں کہ پودے جڑوں سمیت نکلیں، جن کے ساتھ بہت زیادہ بڑھوتری والے اور کمزور پودے بھی نکال دیں۔ گاجر 100 سے 120 دن بعد پوری طرح تیار ہو جاتی ہے، لیکن روز مرہ استعمال کیلئے تقریباً 80 سے 90 دن بعد جب اس کی موٹائی 2 سے5 سینٹی میٹر ہو جائے، تو برداشت کرلیں۔ گاجر برداشت کرنے سے 2 ہفتہ پہلے آبپاشی بند کردینی چاہئے، تاکہ زمین تر وتر حالت میں آجائے اور گاجریں اکھاڑنے میں آسانی ہو

No comments:

Post a Comment